سب لذتیں وصال کی بیکار کرتے ہو
کیوں بار بار نیند سے بیدار کرتے ہو
اچھا تو تم کو مشق مسیحائی کرنی ہے
اتنا اسی لیے ہمیں بیمار کرتے ہو
سایہ سروں پہ دھوپ میں کرنے کی بات تھی
یہ نیک کام کیوں پس دیوار کرتے ہو
کپڑے سفید دیکھ کے بولا یہ میرا جسم
کس جشن کے لیے مجھے تیار کرتے ہو
وعدہ تو یہ کہ گھر میں بسائیں گے ہم تمہیں
پھر ہم کو قیدئ در و دیوار کرتے ہو
ہے عشق کے سوا بھی کوئی بات ورنہ تم
کیوں بار بار عشق کا اظہار کرتے ہو
ایسا ہے کون دل کا خریدار جس پہ تم
چھوٹی سی اس دکان کو بازار کرتے ہو
ہم تو تمہارے قبضۂ قدرت میں ہیں تو پھر
اتنا قریب کیوں مری سرکار کرتے ہو
دل دار دل سے لگ کے کھڑے ہوں تو کس لیے
دنیا کی اوٹ سے مرا دیدار کرتے ہو
احساسؔ ہی نے تم کو بنایا ہے بادشاہ
احساسؔ ہی کو راندۂ دربار کرتے ہو
غزل
سب لذتیں وصال کی بیکار کرتے ہو
فرحت احساس