EN हिंदी
سب کچھ نہ کہیں سوگ منانے میں چلا جائے | شیح شیری
sab kuchh na kahin sog manane mein chala jae

غزل

سب کچھ نہ کہیں سوگ منانے میں چلا جائے

ساقی فاروقی

;

سب کچھ نہ کہیں سوگ منانے میں چلا جائے
جی میں ہے کسی اور زمانے میں چلا جائے

میں جس کے طلسمات سے باہر نکل آیا
اک روز اسی آئنہ خانے میں چلا جائے

جو میرے لیے آج صداقت کی طرح ہے
وہ خواب نہ گم ہو کے فسانے میں چلا جائے

سہما ہوا آنسو کہ سسکتا ہے پلک پر
اب ٹوٹ کے دامن کے خزانے میں چلا جائے

اک عمر کے بعد آیا ہے جینے کا سلیقہ
دکھ ہوگا اگر جان بچانے میں چلا جائے