سب کچھ نہ کہیں سوگ منانے میں چلا جائے
جی میں ہے کسی اور زمانے میں چلا جائے
میں جس کے طلسمات سے باہر نکل آیا
اک روز اسی آئنہ خانے میں چلا جائے
جو میرے لیے آج صداقت کی طرح ہے
وہ خواب نہ گم ہو کے فسانے میں چلا جائے
سہما ہوا آنسو کہ سسکتا ہے پلک پر
اب ٹوٹ کے دامن کے خزانے میں چلا جائے
اک عمر کے بعد آیا ہے جینے کا سلیقہ
دکھ ہوگا اگر جان بچانے میں چلا جائے
غزل
سب کچھ نہ کہیں سوگ منانے میں چلا جائے
ساقی فاروقی