سب کو بتا رہا ہوں یہی صاف صاف میں
جلتے دیے سے کیسے کروں انحراف میں
میں نے تو آسمان کے رنگوں کی بات کی
کہنے لگی زمین بدل دوں غلاف میں
گمراہ کب کیا ہے کسی راہ نے مجھے
چلنے لگا ہوں آپ ہی اپنے خلاف میں
ملتا نہیں ہے پھر بھی سرا آسمان کا
کر کر کے تھک چکا ہوں زمیں کا طواف میں
اب تو بھی آئنے کی طرح بولنے لگا
پتھر سے بھر نہ دوں ترے منہ کا شگاف میں
غزل
سب کو بتا رہا ہوں یہی صاف صاف میں
افضل گوہر راؤ