EN हिंदी
سب کی بگڑی کو بنانے نکلے | شیح شیری
sab ki bigDi ko banane nikle

غزل

سب کی بگڑی کو بنانے نکلے

حسن کمال

;

سب کی بگڑی کو بنانے نکلے
یار ہم تم بھی دوانے نکلے

دھول ہے ریت ہے صحرا ہے یہاں
ہم کہاں پیاس بجھانے نکلے

اتنی رونق ہے کہ جی ڈوبتا ہے
شہر میں خاک اڑانے نکلے

ان اندھیروں میں کرن جب ڈھونڈی
سب کے ہنسنے کے بہانے نکلے

کوئی تو چیز نئی مل جاتی
درد بھی صدیوں پرانے نکلے

چاند کو رات میں موت آئی تھی
لاش ہم دن کو اٹھانے نکلے

عمر برباد یوں ہی کر دی حسنؔ
خواب بھی کتنے سہانے نکلے