سب خلاؤں کو خلاؤں سے بھگو سکتا ہے
آدمی روح کے اندر بھی تو رو سکتا ہے
یہ سیاہی کا سرا جانے کہاں ہاتھ آئے
مرا سایا ترا باطن بھی تو ہو سکتا ہے
دسترس تیرے سمندر کی ہے تجھ سے بھی پرے
تو مجھے آنکھ سے باہر بھی ڈبو سکتا ہے
لے تو آیا ہے مجھے موت کی گردش سے الگ
تو مجھے سانس کے محور پہ بھی کھو سکتا ہے
اپنے انفاس کی تحریک پہ بکھرا ہے مگر
تو میرے لمس میں یکجا بھی تو ہو سکتا ہے
تیری مٹی نے سمویا نہیں تو کیا ہے ریاضؔ
تو تو اس جسم کے باہر کہیں سو سکتا ہے
غزل
سب خلاؤں کو خلاؤں سے بھگو سکتا ہے
ریاض لطیف