سب کے پیروں میں وہی رزق کا چکر کیوں ہے
گریہ اس عہد کے لوگوں کا مقدر کیوں ہے
یہ جو منظر ہیں بڑے کیوں ہیں مری آنکھوں سے
یہ جو دنیا ہے مرے دل کے برابر کیوں ہے
آسمانوں پہ بہت دیر سے ٹھہری ہے شفق
سوچتا ہوں کہ ابھی تک یہی منظر کیوں ہے
میں بظاہر تو اجالوں میں بسر کرتا ہوں
اک پر اسرار سیاہی مرے اندر کیوں ہے
کشتیاں ڈوب چکیں سر پھرے غرقاب ہوئے
مشتعل اب بھی اسی طرح سمندر کیوں ہے
غزل
سب کے پیروں میں وہی رزق کا چکر کیوں ہے
اسعد بدایونی