EN हिंदी
سب کے آگے نہیں بکھرنا ہے | شیح شیری
sab ke aage nahin bikharna hai

غزل

سب کے آگے نہیں بکھرنا ہے

وکاس شرما راز

;

سب کے آگے نہیں بکھرنا ہے
اب جنوں اور طرح کرنا ہے

کیا ضرورت ہے اتنے خوابوں کی
دشت شب پار ہی تو کرنا ہے

آ گئے زندگی کے جھانسے میں
ٹھان رکھا تھا آج مرنا ہے

پوچھنا چاہیئے تھا دریا کو
ڈوبنا ہے کہ پار اترنا ہے

بینڈ باجا ہے تھوڑی دیر کا بس
رات بھر کس نے رقص کرنا ہے