سب کہیں پیچھے چھوٹ چھاٹ گئے
وہ زمانے وہ ٹھاٹ باٹ گئے
کون تولے گا تجھ کو پھولوں میں
وہ ترازو گئی وہ باٹ گئے
ہم سے اچھے رہے ہمارے بزرگ
زندگی سادگی سے کاٹ گئے
اب رہا کیا ہے ان کتابوں میں
کام کی باتیں لوگ چاٹ گئے
پھر کہیں بھی یہ جی لگا ہی نہیں
ہم تو جانے کو گھاٹ گھاٹ گئے
پیاس اپنی بجھا کے پاگل لوگ
سب کنویں راستے کے پاٹ گئے
جانے کس کے حساب میں عالمؔ
راتیں بوجھل تو دن سپاٹ گئے
غزل
سب کہیں پیچھے چھوٹ چھاٹ گئے
س۔ ش۔ عالم