EN हिंदी
سب کہیں پیچھے چھوٹ چھاٹ گئے | شیح شیری
sab kahin pichhe chhuT-chhaT gae

غزل

سب کہیں پیچھے چھوٹ چھاٹ گئے

س۔ ش۔ عالم

;

سب کہیں پیچھے چھوٹ چھاٹ گئے
وہ زمانے وہ ٹھاٹ باٹ گئے

کون تولے گا تجھ کو پھولوں میں
وہ ترازو گئی وہ باٹ گئے

ہم سے اچھے رہے ہمارے بزرگ
زندگی سادگی سے کاٹ گئے

اب رہا کیا ہے ان کتابوں میں
کام کی باتیں لوگ چاٹ گئے

پھر کہیں بھی یہ جی لگا ہی نہیں
ہم تو جانے کو گھاٹ گھاٹ گئے

پیاس اپنی بجھا کے پاگل لوگ
سب کنویں راستے کے پاٹ گئے

جانے کس کے حساب میں عالمؔ
راتیں بوجھل تو دن سپاٹ گئے