سب کائنات حسن کا حاصل لئے ہوئے
بیٹھا ہوں دل میں عشق کی محفل لئے ہوئے
اک اک نظر فریبیٔ ساحل لئے ہوئے
ہر موج سامنے ہے مرا دل لئے ہوئے
سرمایۂ نشاط غم دل لئے ہوئے
ہوں یعنی کیف عشق کا حاصل لئے ہوئے
پھر کشتیٔ حیات ہے گرداب غم کے ساتھ
طوفان بے نیازیٔ ساحل لئے ہوئے
جی چاہتا ہے تھک کے کہیں بیٹھ جائیے
آغوش پائے شوق میں منزل لئے ہوئے
جب لطف ہے کہ میں بھی رہوں اپنے ہوش میں
آؤ مری نگاہ مرا دل لئے ہوئے
وہ مست و محو اپنے فروغ نشاط میں
میں مطمئن ہوں درد بھرا دل لئے ہوئے
اے قیس دید اپنے حجابوں سے ہوشیار
ہر پردۂ نگاہ ہے محمل لئے ہوئے
مجھ پر بھی کچھ کرم نگہ نیشتر نواز
میں بھی ہوں ایک درد بھرا دل لئے ہوئے
باسطؔ کسی جہت سے نہ ہو آشنا مگر
ہلکا سا اک تصور منزل لئے ہوئے

غزل
سب کائنات حسن کا حاصل لئے ہوئے
باسط بھوپالی