EN हिंदी
سب کا دل دار ہے دل دار بھی ایسا ویسا | شیح شیری
sab ka dildar hai dildar bhi aisa waisa

غزل

سب کا دل دار ہے دل دار بھی ایسا ویسا

جاوید صبا

;

سب کا دل دار ہے دل دار بھی ایسا ویسا
اک مرا یار ہے اور یار بھی ایسا ویسا

دشمن جاں بھی نہیں کوئی برابر اس کے
اور مرا حاشیہ بردار بھی ایسا ویسا

بے تعلق ہی سہی اس کو مگر ہے مجھ سے
اک سروکار سروکار بھی ایسا ویسا

اس کا لہجہ کہ بہت سادہ و معصوم سہی
ہے فسوں کار فسوں کار بھی ایسا ویسا

ذوقؔ سے اس کو عقیدت ہے کہ اللہ اللہ
اور غالبؔ کا طرف دار بھی ایسا ویسا

کیا زمانہ تھا کہ جب اہل ہوس کے نزدیک
کوئی معیار تھا معیار بھی ایسا ویسا

میں بھی تمثیل نگاری میں بہت آگے تھا
وہ بھی فن کار تھا فن کار بھی ایسا ویسا

کوئی افتاد پڑی تھی کہ ابھی تک چپ تھا
اک سخن کار سخن کار بھی ایسا ویسا

ایک تھی جرأت انکار کہ ایسی ویسی
ایک دربار تھا دربار بھی ایسا ویسا

جس کا شاہوں کی نظر میں کوئی کردار نہ تھا
ایک کردار تھا کردار بھی ایسا ویسا

ایک اصرار تھا اصرار بھی بیعت کے لیے
ایک انکار تھا انکار بھی ایسا ویسا