سب گھروں میں تو چراغوں کا اجالا ہوگا
لیکن افسردہ فقط رات کا چہرا ہوگا
ساری پرچھائیاں گوشوں میں دبک جائیں گی
سورج ابھرے گا تو یہ گاؤں اکیلا ہوگا
ہم تو وابستہ رہے غم سے وفا کے مارے
غم نے کیا جانئے کیوں کر ہمیں چاہا ہوگا
جب کھلی ہوں گی تمنا کے شجر پر کلیاں
دشت امید میں طوفان سا اٹھا ہوگا
کوئی سایہ سا ہے چپ چاپ دریچے میں کھڑا
اپنی الفت کا ہی شاید وہ ہیولیٰ ہوگا
غزل
سب گھروں میں تو چراغوں کا اجالا ہوگا
ستیہ نند جاوا