سب باتیں لا حاصل ٹھہریں سارے ذکر فضول گئے
یاد رہا اک نام تمہارا باقی سب کچھ بھول گئے
میں نے تیرا نام مٹا کر تیرا چہرہ کیا بھولا
بیچ سمندر کشتی ٹوٹی ہاتھوں سے مستول گئے
تیرے ساتھ ترے رستے میں ہنستے بولتے ساتھی تھے
میرے ساتھ مرے رستے میں کانٹے اور ببول گئے
شام پرندے لوٹ آئے تو ہم تری کھوج میں چل نکلے
پھر جنگل میں رات ہوئی اور گھر کا رستہ بھول گئے
بحث بھری ملاقات کے بعد وہ آخر بستی چھوڑ گیا
سب تاویلیں خاک ہوئیں مرے سارے لفظ فضول گئے
ہوا کو کیا معلوم ہو اظہرؔ ہوا کے ایک ہی جھونکے سے
کتنی شاخیں ٹوٹ گئیں اور کتنے پتے جھول گئے
غزل
سب باتیں لا حاصل ٹھہریں سارے ذکر فضول گئے
اظہر علی