ساز کے موجوں پہ نغموں کی سواری میں تھی
بھیروی بن کے لب صبح پہ جاری میں تھی
میں جو روتی تھی مرا چہرہ نکھر جاتا تھا
آنسوؤں کے لیے پھولوں کی کیاری میں تھی
گیت بن جاتی کبھی اور کبھی آنسو بنتی
کبھی ہونٹوں سے کبھی آنکھوں سے جاری میں تھی
جان دینا تو بڑی چیز ہے دل بھی نہ دیا
تو تو کہتا تھا تجھے جان سے پیاری میں تھی
میں ہری شاخ تھی گرچہ کبھی پھولی نہ پھلی
تم سے بھی ٹوٹ گئی گرچہ تمہاری میں تھی
تو نے کچھ قدر نہ کی یہ بڑا نقصان ہوا
تیرے گلشن کے لیے فصل بہاری میں تھی
مجھ سے دیکھا نہ گیا تیرا پریشاں ہونا
عشق کی بازی سمجھ بوجھ کے ہاری میں تھی
یہ جو انجمؔ کی ہے بربادی کا قصہ مشہور
ہائے وہ شامت اعمال کی ماری میں تھی
غزل
ساز کے موجوں پہ نغموں کی سواری میں تھی
صوفیہ انجم تاج