ساز دل ساز جنوں ساز وفا کچھ بھی نہیں
وہ نہ ہوں پاس تو جینے کا مزہ کچھ بھی نہیں
جینے والوں کے لیے اس کی بڑی قیمت ہے
مرنے والوں کے لیے آب بقا کچھ بھی نہیں
مصلحت کہتی ہے لوگوں سے کہ میرے گھر میں
اس طرح آگ لگی ہے کہ جلا کچھ بھی نہیں
ان کے ہاتھوں میں ہے تقدیر جہاں دیوانے
تیرے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
بے خطا ایسے بھی دیکھے ہیں جہاں میں تم نے
ہے خطا جن کا یہ کہنا کہ خطا کچھ بھی نہیں
جب سے مجروح ہوئی لذت احساس الم
درد میں غم میں تڑپنے میں مزا کچھ بھی نہیں
کیا بتائیں کہ غم دل کے علاوہ شاہدؔ
ہم کو اس شہر نگاراں سے ملا کچھ بھی نہیں
غزل
ساز دل ساز جنوں ساز وفا کچھ بھی نہیں
شاہد بھوپالی