ساز بنے ان اشکوں سے جو بہتے ہیں تنہائی میں
صدیوں کی محرومی رو رو گاتی ہے شہنائی میں
جتنے ہلکے لوگ تھے وہ سب تیر گئے اس پار ہوئے
ایک ہمیں تھے ڈوب گئے جو اپنی ہی گہرائی میں
اپنا بدن سوتا رہتا ہے بستر پر لیکن اکثر
رات گئے ٹہلا کرتا ہے کون مری انگنائی میں
دل ہے کس کا جاں ہے کسی کی اور کس کی ہے یہ نظر
کتنا بکھرا پن پنہاں ہے ایک مری یکجائی میں
ظلم کی شدت خود اپنی ہی موت کا باعث بنتی ہے
جیت کی صورت دیکھ رہے ہیں ہم اپنی پسپائی میں

غزل
ساز بنے ان اشکوں سے جو بہتے ہیں تنہائی میں
مشتاق نقوی