EN हिंदी
ساز بنے ان اشکوں سے جو بہتے ہیں تنہائی میں | شیح شیری
saz bane un ashkon se jo bahte hain tanhai mein

غزل

ساز بنے ان اشکوں سے جو بہتے ہیں تنہائی میں

مشتاق نقوی

;

ساز بنے ان اشکوں سے جو بہتے ہیں تنہائی میں
صدیوں کی محرومی رو رو گاتی ہے شہنائی میں

جتنے ہلکے لوگ تھے وہ سب تیر گئے اس پار ہوئے
ایک ہمیں تھے ڈوب گئے جو اپنی ہی گہرائی میں

اپنا بدن سوتا رہتا ہے بستر پر لیکن اکثر
رات گئے ٹہلا کرتا ہے کون مری انگنائی میں

دل ہے کس کا جاں ہے کسی کی اور کس کی ہے یہ نظر
کتنا بکھرا پن پنہاں ہے ایک مری یکجائی میں

ظلم کی شدت خود اپنی ہی موت کا باعث بنتی ہے
جیت کی صورت دیکھ رہے ہیں ہم اپنی پسپائی میں