ساتھ لے کر اپنی بربادی کے افسانے گئے
آبروئے انجمن تھے جو وہ دیوانے گئے
ابتدا یہ تھی کہ دنیا بھر کی نظریں ہم پہ تھیں
انتہا یہ ہے کہ خود سے بھی نہ پہچانے گئے
تیری فیاضی سے کب انکار ہے ساقی مگر
ایسے میکش بھی ہیں کچھ جن تک نہ پیمانے گئے
محفلیں مہکی ہوئی تھیں جن سے وہ گل کیا ہوئے
شاید اب وہ گوشۂ تربت کو مہکانے گئے
دوسروں کے غم میں روتی تھیں جو شمعیں بجھ گئیں
آگ میں غیروں کی جلتے تھے جو پروانے گئے
تشنگی سے ظرف کو اے ساقئ محفل نہ تول
اٹھ گئے تو عمر بھر کو پھر یہ دیوانے گئے
مشورے تو عقل بھی دیتی رہی راہیؔ مگر
دل نے جو فرمائے تھے وہ فیصلے مانے گئے
غزل
ساتھ لے کر اپنی بربادی کے افسانے گئے
راہی شہابی