EN हिंदी
ساتھ غربت میں کوئی غیر نہ اپنا نکلا | شیح شیری
sath ghurbat mein koi ghair na apna nikla

غزل

ساتھ غربت میں کوئی غیر نہ اپنا نکلا

شکیب بنارسی

;

ساتھ غربت میں کوئی غیر نہ اپنا نکلا
میں فقط درد کے صحرا میں اکیلا نکلا

میں نے مانگی تھی شب غم کے گزرنے کی دعا
اور مرے گھر سے بہت دور اجالا نکلا

کوئی چہرہ نہ کوئی عکس نظر آتا ہے
اپنی تقدیر کا آئینہ بھی اندھا نکلا

زندگی کس سے اب امید مداوا رکھے
دشمن جاں تو مرا اپنا مسیحا نکلا

وہ ترا رنگ وفا ہو کہ ترا طرز جفا
میں ہر اک رنگ میں تصویر تمنا نکلا

کیوں نہ دنیا کو مرے قتل پہ حیرت ہوگی
ساتھ میرے مرے قاتل کا جنازہ نکلا

میں بھی تو کون سی رکھتا ہوں محبت اس سے
اپنے دشمن کی طرح میں بھی تو اندھا نکلا

کوئی تحفہ نہ کوئی خط نہ کسی کی تصویر
اور مرے گھر سے ترے غم کے سوا کیا نکلا

کٹ گئی عمر چھپائے ہوئے غم اپنا شکیبؔ
اپنے منہ سے نہ کبھی حرف تمنا نکلا