EN हिंदी
ساری امید رہی جاتی ہے | شیح شیری
sari ummid rahi jati hai

غزل

ساری امید رہی جاتی ہے

بسملؔ  عظیم آبادی

;

ساری امید رہی جاتی ہے
ہائے پھر صبح ہوئی جاتی ہے

نیند آتی ہے نہ وہ آتے ہیں
رات گزری ہی چلی جاتی ہے

مجمع حشر میں روداد باب
وہ سنے بھی تو کہی جاتی ہے

داستاں پوری نہ ہونے پائی
زندگی ختم ہوئی جاتی ہے

وہ نہ آئے ہیں تو بے چین ہے روح
ابھی آتی ہے ابھی جاتی ہے

زندگی آپ کے دیوانے کی
کسی صورت سے کٹی جاتی ہے

غم میں پروانوں کے اک مدت سے
شمع گھلتی ہی چلی جاتی ہے

آپ محفل سے چلے جاتے ہیں
داستاں باقی رہی جاتی ہے

ہم تو بسملؔ ہی رہے خیر ہوئی
عشق میں جان چلی جاتی ہے