ساری رسوائی زمانے کی گوارا کر کے
زندگی جیتے ہیں کچھ لوگ خسارا کر کے
اپنے اس کام پہ وہ راتوں کو روتا ہوگا
بیچ دیتا ہے جو ذرے کو ستارہ کر کے
غم کے مارے ہوئے ہم لوگ مگر کالج میں
دل بہل جاتا ہے پریوں کا نظارہ کر کے
پھر وہی جوش وہی جذبہ عطا ہوتا ہے
تم نے دیکھا ہی نہیں پیار دوبارہ کر کے
اپنے کردار سے دنیا کو ہلا کر رکھ دے
ورنہ کیا فائدہ اس طرح گزارہ کر کے
ہم سے آباد ہے یہ شعر و سخن کی محفل
ہم تو مر جائیں گے لفظوں سے کنارہ کر کے
غزل
ساری رسوائی زمانے کی گوارا کر کے
ہاشم رضا جلالپوری