سارے موسم بدل گئے شاید
اور ہم بھی سنبھل گئے شاید
جھیل کو کر کے ماہتاب سپرد
عکس پا کر بہل گئے شاید
ایک ٹھہراؤ آ گیا کیسا
زاویے ہی بدل گئے شاید
اپنی لو میں تپا کے ہم خود کو
موم بن کر پگھل گئے شاید
کانپتی لو قرار پانے لگی
جھونکے آ کر نکل گئے شاید
ہم ہوا سے بچا رہے تھے جنہیں
ان چراغوں سے جل گئے شاید
اب کے برسات میں بھی دل خوش ہے
ہجر کے خوف ٹل گئے شاید
صاف ہونے لگے سبھی منظر
اشک آنکھوں سے ڈھل گئے شاید
بارش سنگ جیسے بارش گل
سارے پتھر پگھل گئے شاید
وہ علیناؔ بدل گیا تھا بہت
اس لیے ہم سنبھل گئے شاید
غزل
سارے موسم بدل گئے شاید
علینا عترت