سارے منظر ایک جیسے ساری باتیں ایک سی
سارے دن ہیں ایک سے اور ساری راتیں ایک سی
بے نتیجہ بے ثمر جنگ و جدل سود و زیاں
ساری جیتیں ایک جیسی ساری ماتیں ایک سی
سب ملاقاتوں کا مقصد کاروبار زرگری
سب کی دہشت ایک جیسی سب کی گھاتیں ایک سی
اب کسی میں اگلے وقتوں کی وفا باقی نہیں
سب قبیلے ایک ہیں اب ساری ذاتیں ایک سی
ایک ہی رخ کی اسیری خواب ہے شہروں کا اب
ان کے ماتم ایک سے ان کی براتیں ایک سی
ہوں اگر زیر زمیں تو فائدہ ہونے کا کیا
سنگ و گوہر ایک ہیں پھر ساری دھاتیں ایک سی
اے منیرؔ آزاد ہو اس سحر یک رنگی سے تو
ہو گئے سب زہر یکساں سب نباتیں ایک سی
غزل
سارے منظر ایک جیسے ساری باتیں ایک سی
منیر نیازی