سارا شہر بلکتا ہے
پھر بھی کیسا سکتہ ہے
گلیوں میں بارود کی بو
یا پھر خون مہکتا ہے
سب کے بازو یخ بستہ
سب کا جسم دہکتا ہے
ایک سفر وہ ہے جس میں
پاؤں نہیں دل تھکتا ہے
غزل
سارا شہر بلکتا ہے
احمد فراز
غزل
احمد فراز
سارا شہر بلکتا ہے
پھر بھی کیسا سکتہ ہے
گلیوں میں بارود کی بو
یا پھر خون مہکتا ہے
سب کے بازو یخ بستہ
سب کا جسم دہکتا ہے
ایک سفر وہ ہے جس میں
پاؤں نہیں دل تھکتا ہے