EN हिंदी
سارا شہر بلکتا ہے | شیح شیری
sara shahr bilakta hai

غزل

سارا شہر بلکتا ہے

احمد فراز

;

سارا شہر بلکتا ہے
پھر بھی کیسا سکتہ ہے

گلیوں میں بارود کی بو
یا پھر خون مہکتا ہے

سب کے بازو یخ بستہ
سب کا جسم دہکتا ہے

ایک سفر وہ ہے جس میں
پاؤں نہیں دل تھکتا ہے