EN हिंदी
سارا بدن ہے خون سے کیوں تر اسے دکھا | شیح شیری
sara badan hai KHun se kyun tar use dikha

غزل

سارا بدن ہے خون سے کیوں تر اسے دکھا

یوسف جمال

;

سارا بدن ہے خون سے کیوں تر اسے دکھا
شہ رگ کٹی ہے جس سے وہ نشتر اسے دکھا

آئے گی کیسے نیند دکھا وہ ہنر اسے
پھر اس کے بعد خواب کو چھو کر اسے دکھا

آنکھوں سے اپنے اشک کے تاروں کو توڑ کر
سوکھی ندی کے درد کا منظر اسے دکھا

دکھ سکھ جو دھوپ چھاؤں کا اک کھیل ہے تو پھر
سورج کے ساتھ بادلوں کے پر اسے دکھا

آئے جو کوئی شیشے کا پیکر لیے ہوئے
تو اپنے دشت شوق میں پتھر اسے دکھا

پوچھے جو زندگی کی حقیقت کوئی جمالؔ
تو چٹکیوں میں ریت اڑا کر اسے دکھا