EN हिंदी
ساقیا تو نے مرے ظرف کو سمجھا کیا ہے | شیح شیری
saqiya tu ne mere zarf ko samjha kya hai

غزل

ساقیا تو نے مرے ظرف کو سمجھا کیا ہے

فنا نظامی کانپوری

;

ساقیا تو نے مرے ظرف کو سمجھا کیا ہے
زہر پی لوں گا ترے ہاتھ سے صہبا کیا ہے

میں چلا آیا ترا حسن تغافل لے کر
اب تری انجمن ناز میں رکھا کیا ہے

نہ بگولے ہیں نہ کانٹے ہیں نہ دیوانے ہیں
اب تو صحرا کا فقط نام ہے صحرا کیا ہے

ہو کے مایوس وفا ترک وفا تو کر لوں
لیکن اس ترک وفا کا بھی بھروسا کیا ہے

کوئی پابند محبت ہی بتا سکتا ہے
ایک دیوانے کا زنجیر سے رشتہ کیا ہے

ساقیا کل کے لیے میں تو نہ رکھوں گا شراب
تیرے ہوتے ہوئے اندیشۂ فردا کیا ہے

میری تصویر غزل ہے کوئی آئینہ نہیں
سیکڑوں رخ ہیں ابھی آپ نے دیکھا کیا ہے

صاف گوئی میں تو سنتے ہیں فناؔ ہے مشہور
دیکھنا یہ ہے ترے منہ پہ وہ کہتا کیا ہے