EN हिंदी
ساقی ظہور صبح و ترشح ہے نور کا | شیح شیری
saqi zuhur-e-subh o tarashshah hai nur ka

غزل

ساقی ظہور صبح و ترشح ہے نور کا

نظیر اکبرآبادی

;

ساقی ظہور صبح و ترشح ہے نور کا
دے مے یہی تو وقت ہے نور و ظہور کا

کوچہ میں اس کے جس کو جگہ مل گئی وہ پھر
مائل ہوا نہ صحن چمن کے سرور کا

یہ گل جو ہم نے ہاتھ پہ کھائے ہیں روبرو
ہم کو یہی ملا ہے تبرک حضور کا

سیماب جس کو کہتے ہیں سیماب یہ نہیں
دل آب ہو گیا ہے کسی ناصبور کا

مے پی کے عاشقی کے خرابات میں نظیرؔ
نے ڈر ہے محتسب کا نہ صدر الصدور کا