ساقی ظہور صبح و ترشح ہے نور کا
دے مے یہی تو وقت ہے نور و ظہور کا
کوچہ میں اس کے جس کو جگہ مل گئی وہ پھر
مائل ہوا نہ صحن چمن کے سرور کا
یہ گل جو ہم نے ہاتھ پہ کھائے ہیں روبرو
ہم کو یہی ملا ہے تبرک حضور کا
سیماب جس کو کہتے ہیں سیماب یہ نہیں
دل آب ہو گیا ہے کسی ناصبور کا
مے پی کے عاشقی کے خرابات میں نظیرؔ
نے ڈر ہے محتسب کا نہ صدر الصدور کا

غزل
ساقی ظہور صبح و ترشح ہے نور کا
نظیر اکبرآبادی