EN हिंदी
ساقی شراب ہے تو غنیمت ہے اب کی اب | شیح شیری
saqi sharab hai to ghanimat hai ab ki ab

غزل

ساقی شراب ہے تو غنیمت ہے اب کی اب

نظیر اکبرآبادی

;

ساقی شراب ہے تو غنیمت ہے اب کی اب
پھر بزم ہوگی جب تو سمجھ لیجو جب کی جب

ساغر کے لب سے پوچھیے اس لب کی لذتیں
کس واسطے کہ خوب سمجھتا ہے لب کی لب

کم فرصتی سے عمر کی اپنی ہزار حیف
جتنی تھیں خواہشیں وہ رہیں دل میں سب کی سب

سن کر وہ کل کی آج نہ ہو کس طرح خفا
اے نا شناس طبع کہی تو نے کب کی کب

پھولا ہوا بدن میں سماتا نہیں نظیرؔ
وہ گل بدن جو پاس رہا اس کے شب کی شب