ساقی کھلتا ہے پیمانہ کھلتا ہے
سچے رندوں پر مے خانہ کھلتا ہے
ان گلیوں میں لوگ بھٹکتے دیکھے ہیں
جن گلیوں میں دانش خانہ کھلتا ہے
مجھ کو پڑھنے آ جاتے ہیں لاکھوں لوگ
جب بھی غزلوں کا تہہ خانہ کھلتا ہے
تم پر شاید چار بہاریں کھلتی ہوں
مجھ سے تو ہر پل ویرانہ کھلتا ہے
سب کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں
آذرؔ جب کوئی دیوانہ کھلتا ہے
غزل
ساقی کھلتا ہے پیمانہ کھلتا ہے
بلوان سنگھ آذر