سانسوں میں بسے ہو تم آنکھوں میں چھپا لوں گا
جب چاہوں تمہیں دیکھوں آئینہ بنا لوں گا
یادوں سے کہو میری بالیں سے چلی جائیں
اب اے شب تنہائی آرام ذرا لوں گا
رنجش سے جدائی تک کیا سانحہ گزرا ہے
کیا کیا مجھے دعویٰ تھا جب چاہوں منا لوں گا
تصویر خیالی ہے ہر آنکھ سوالی ہے
دنیا مجھے کیا دے گی دنیا سے میں کیا لوں گا
کب لوٹ کے آؤ گے اصرار نہیں کرتا
اتنا مرے بس میں ہے میں عمر گھٹا لوں گا
کیا تہمتیں دنیا نے اے شاذؔ اٹھائی ہیں
اک تہمت ہستی تھی سوچا تھا اٹھا لوں گا

غزل
سانسوں میں بسے ہو تم آنکھوں میں چھپا لوں گا
شاذ تمکنت