EN हिंदी
سانسوں کی ٹوٹی سرگم میں اک میٹھا سور یاد رہا | شیح شیری
sanson ki TuTi sargam mein ek miTha swar yaad raha

غزل

سانسوں کی ٹوٹی سرگم میں اک میٹھا سور یاد رہا

کنور بے چین

;

سانسوں کی ٹوٹی سرگم میں اک میٹھا سور یاد رہا
یوں تو سب کچھ بھول گیا میں پر تیرا گھر یاد رہا

یوں بھی کوئی ملنا ہے جو ملنے کی گھڑیوں میں بھی
ملنے سے پہلے اس ظالم دنیا کا ڈر یاد رہا

ورنہ میں بھی جھک ہی جاتا ظلم کی اندھی چوکھٹ پر
اچھا رہا کہ مجھ کو اپنے شاعر کا سر یاد رہا

ہونٹوں سے جو بات ہوئی وہ نیل گگن تک جا پہنچی
آنکھوں نے جو لکھا دل پر اکھشر اکھشر یاد رہا

جس کے کارن تیاگ تپسیا اور تپ کو ونواس ملا
سوچ رہا ہوں اک رانی کو کیوں ایسا ور یاد رہا