سانس لیجے تو بکھر جاتے ہیں جیسے غنچے
اب کے آواز میں بجتے ہیں خزاں کے پتے
چڑھتے سورج پہ پڑیں سائے ہم آواروں کے
وہ دیا اب کے ہتھیلی پہ جلا کر چلیے
شام کو گھر سے نکل کر نہ پلٹنے والے
در و دیوار سے سائے ترے رخصت نہ ہوئے
بے وفا کہہ کے تجھے اپنا بھرم کیوں کھولیں
اے سبک گام ہمیں رہ گئے تجھ سے پیچھے
وا ہو آغوش محبت سے جو تنہائی میں
ایسا لگتا ہے کہ ہم پر کوئی سولی اترے
بات کرتے ہیں تو گونج اٹھتی ہے آواز شکست
اور قدم رکھیں تو گلیوں کی زمیں بج اٹھے
صدیوں میں بھی جو گزاریں تو نہ گزرے یارو
ہائے وہ لمحہ کہ جس میں کوئی پیارا بچھڑے
حشمیؔ گھر کے ستونوں سے لپٹ کر رونا
بے نوائی کے یہ انداز کہاں تھے پہلے

غزل
سانس لیجے تو بکھر جاتے ہیں جیسے غنچے
جلیل حشمی