سانس لینے کے لیے تازہ ہوا بھیجی ہے
زندگی کے لیے معصوم دعا بھیجی ہے
میں نے بھیجی تھی گلابوں کی بشارت اس کو
تحفۃً اس نے بھی خوشبوئے وفا بھیجی ہے
میں تو قاتل تھا بری ہو کے بھی قاتل ہی رہا
مجھ کو انصاف نے جینے کی سزا بھیجی ہے
کتنے غم ہیں جو سر شام سلگ اٹھتے ہیں
چارہ گر تو نے یہ کس دکھ کی دوا بھیجی ہے
مرحلے اور بھی تھے جاں سے گزرنے کے لیے
کربلا کس نے پس کرب و بلا بھیجی ہے
غزل
سانس لینے کے لیے تازہ ہوا بھیجی ہے
حامد سروش