EN हिंदी
سانس لینے کے لیے تازہ ہوا بھیجی ہے | شیح شیری
sans lene ke liye taza hawa bheji hai

غزل

سانس لینے کے لیے تازہ ہوا بھیجی ہے

حامد سروش

;

سانس لینے کے لیے تازہ ہوا بھیجی ہے
زندگی کے لیے معصوم دعا بھیجی ہے

میں نے بھیجی تھی گلابوں کی بشارت اس کو
تحفۃً اس نے بھی خوشبوئے وفا بھیجی ہے

میں تو قاتل تھا بری ہو کے بھی قاتل ہی رہا
مجھ کو انصاف نے جینے کی سزا بھیجی ہے

کتنے غم ہیں جو سر شام سلگ اٹھتے ہیں
چارہ گر تو نے یہ کس دکھ کی دوا بھیجی ہے

مرحلے اور بھی تھے جاں سے گزرنے کے لیے
کربلا کس نے پس کرب و بلا بھیجی ہے