سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
کوہ غم پر سے جو دیکھوں تو مجھے
دشت آغوش فنا لگتا ہے
سر بازار ہے یاروں کی تلاش
جو گزرتا ہے خفا لگتا ہے
موسم گل میں سر شاخ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے
مسکراتا ہے جو اس عالم میں
بہ خدا مجھ کو خدا لگتا ہے
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے
ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا
درد یہ سب سے جدا لگتا ہے
نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شکر کرتا ہوں گلہ لگتا ہے
اس قدر تند ہے رفتار حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے
غزل
سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
احمد ندیم قاسمی