EN हिंदी
سانحے لاکھ سہی ہم پہ گزرنے والے | شیح شیری
sanehe lakh sahi hum pe guzarne wale

غزل

سانحے لاکھ سہی ہم پہ گزرنے والے

سیما نقوی

;

سانحے لاکھ سہی ہم پہ گزرنے والے
راستو ہم بھی نہیں ڈر کے ٹھہرنے والے

مارنے والے کوئی اور سبب ڈھونڈ کہ ہم
مارے جانے کے تو ڈر سے نہیں مرنے والے

کتنی جلدی میں ہوا ختم ملاقات کا وقت
ورنہ کیا کیا نہ سوالات تھے کرنے والے

گفتگو خود سے ہوئی اپنے ہی حق میں ورنہ
سچ سے اس بار تو ہم بھی تھے مکرنے والے

زندگی اپنی تماشہ ہی سہی لیکن ہم
کوئی کردار مسلسل نہیں کرنے والے

ایک کاغذ کے بھروسے پہ بنا کر کشتی
گہرے پانی میں اترتے ہیں اترنے والے

پیاس بھڑکائیں جہاں صرف رویوں کے سراب
ہم بھی اس دشت میں پاؤں نہیں دھرنے والے

ہم میں کیوں بات کبھی ہو نہیں پاتی سیماؔ
ہم کسی روز یہی بات تھے کرنے والے