سانحہ روز نیا ہو تو غزل کیا کہیے
ہر طرف حشر بپا ہو تو غزل کیا کہیے
بربریت پہ ہی قدغن ہے نہ سفاکی پر
رقص ابلیس روا ہو تو غزل کیا کہیے
تیر باراں میرے پندار پہ ہیں اہل جفا
عزت نفس فنا ہو تو غزل کیا کہیے
بولنا بھی یہاں دشوار ہے چپ رہنا بھی
قفل ہونٹوں پہ لگا ہو تو غزل کیا کہیے
ایک ناسور سا ہے دل کی جگہ سینے میں
زخم اندر سے ہرا ہو تو غزل کیا کہیے
بھوک نے تلخیاں بھر دی ہیں لب و لہجے میں
زہر فاقوں میں گھلا ہو تو غزل کیا کہیے
دم غریبی میں نکلتا نہ ٹھہرتا ہے ربابؔ
زندگی سرد چتا ہو تو غزل کیا کہیے
غزل
سانحہ روز نیا ہو تو غزل کیا کہیے
ظفر رباب