EN हिंदी
سانحہ روز نیا ہو تو غزل کیا کہیے | شیح شیری
saneha roz naya ho to ghazal kya kahiye

غزل

سانحہ روز نیا ہو تو غزل کیا کہیے

ظفر رباب

;

سانحہ روز نیا ہو تو غزل کیا کہیے
ہر طرف حشر بپا ہو تو غزل کیا کہیے

بربریت پہ ہی قدغن ہے نہ سفاکی پر
رقص ابلیس روا ہو تو غزل کیا کہیے

تیر باراں میرے پندار پہ ہیں اہل جفا
عزت نفس فنا ہو تو غزل کیا کہیے

بولنا بھی یہاں دشوار ہے چپ رہنا بھی
قفل ہونٹوں پہ لگا ہو تو غزل کیا کہیے

ایک ناسور سا ہے دل کی جگہ سینے میں
زخم اندر سے ہرا ہو تو غزل کیا کہیے

بھوک نے تلخیاں بھر دی ہیں لب و لہجے میں
زہر فاقوں میں گھلا ہو تو غزل کیا کہیے

دم غریبی میں نکلتا نہ ٹھہرتا ہے ربابؔ
زندگی سرد چتا ہو تو غزل کیا کہیے