سانچے میں ہم نے اور کے ڈھلنے نہیں دیا
دل موم کا تھا پھر بھی پگھلنے نہیں دیا
ہاتھوں کی اوٹ دے کے جلا لیں ہتھیلیاں
اے شمع تجھ کو ہم نے مچلنے نہیں دیا
دنیا نے بہت چاہا کہ دل جانور بنے
میں نے ہی اس کو جسم بدلنے نہیں دیا
ضد یہ تھی وہ جلے گا تمہارے ہی ہاتھ سے
اس ضد نے ایک چراغ کو جلنے نہیں دیا
چہرے کو آج تک بھی تیرا انتظار ہے
ہم نے گلال اور کو ملنے نہیں دیا
باہر کی ٹھوکروں سے تو بچ کر نکل گئے
پاؤں کو اپنی موچ نے چلنے نہیں دیا
غزل
سانچے میں ہم نے اور کے ڈھلنے نہیں دیا
کنور بے چین

