سامنے ان کو پایا تو ہم کھو گئے آج پھر حسرت گفتگو رہ گئی
ان سے کہنا تھا روداد شام الم دل کی دل ہی میں یہ آرزو رہ گئی
غم کے سانچے میں اک اک نفس ڈھل گیا ان کی محفل میں یہ دور بھی چل گیا
اشک پینے سے مانا کہ دل جل گیا ضبط غم کی مگر آبرو رہ گئی
تیرے نقش قدم بھی ملے جا بجا تیری محفل ترا آستاں بھی ملا
ہاں مگر تو کسی کو نہیں مل سکا ہو کے ناکام ہر جستجو رہ گئی
دل میں داغوں کا جب سے ہے اک گلستاں چھن گئی ہیں بہاروں سے رنگینیاں
اب گلوں میں وہ پہلی سی نکہت کہاں عارضی رونق رنگ و بو رہ گئی
ناز تھا ہم کو جن پر انہیں کی قسم وہ بھی الفت میں نکلے نہ ثابت قدم
بے کسی کے اندھیرے میں اے شام غم ایک ہم رہ گئے ایک تو رہ گئی
اللہ اللہ ترے حسن کی اک جھلک روشنی ہو گئی از زمیں تا فلک
ایک بجلی سی لہرائی کچھ دور تک پھر ٹھہر کر مرے روبرو رہ گئی
آنکھ سے آنکھ اور دل سے دل جب ملا جانے ان کی نگاہوں نے کیا کر دیا
میری آنکھوں میں اس روز سے اے صباؔ کھنچ کے تصویر جام و سبو رہ گئی
غزل
سامنے ان کو پایا تو ہم کھو گئے آج پھر حسرت گفتگو رہ گئی
صبا افغانی