سامنے تیرے ہوں گھبرایا ہوا
بے زباں ہونے پر شرمایا ہوا
لاکھ اب منظر ہو دھندلایا ہوا
یاد ہے مجھ کو نظر آیا ہوا
یہ بھی کہنا تھا بتا کر راستہ
میں وہی ہوں تیرا بھٹکایا ہوا
میں کہ اک آسیب اک بے چپن روح
بے وضو ہاتھوں کا دفنایا ہوا
آ گیا پھر مشورہ دینے مجھے
خیمۂ دشمن کا سمجھایا ہوا
پھر وہ منزل لطف کیا دیتی مجھے
میں وہاں پہنچا تھا جھنجھلایا ہوا
تیری گلیوں سے گزر آساں نہیں
آج بھی چلتا ہوں گھبرایا ہوا
کچھ نیا کرنے کا پھر مطلب ہی کیا
جب تماشائی ہے اکتایا ہوا
کم سے کم اس کا تو رکھتا وہ لحاظ
میں ہوں اک آواز پر آیا ہوا
مجھ کو آسانی سے پا سکتا ہے کون
میں ہوں تیرے در کا ٹھکرایا ہوا

غزل
سامنے تیرے ہوں گھبرایا ہوا
شارق کیفی