سامنے سب کے نہ بولیں گے ہمارا کیا ہے
چھپ کے تنہائی میں رو لیں گے ہمارا کیا ہے
گلشن عشق میں ہر پھول تمہارا ہی سہی
ہم کوئی خار چبھو لیں گے ہمارا کیا ہے
عمر بھر کون رہے ابر کرم کا محتاج
داغ دل اشکوں سے دھو لیں گے ہمارا کیا ہے
ہاتھ آیا نہ اگر دست حنائی تیرا
انگلیاں خوں میں ڈبو لیں گے ہمارا کیا ہے
تم نے محلوں کے علاوہ نہیں دیکھا کچھ بھی
ہم تو فٹ پاتھ پہ سو لیں گے ہمارا کیا ہے
اپنی منزل تو سرابوں کا سفر ہے باقیؔ
ہم کسی راہ پہ ہو لیں گے ہمارا کیا ہے
غزل
سامنے سب کے نہ بولیں گے ہمارا کیا ہے
باقی احمد پوری