EN हिंदी
ساحلوں کی خامشی نے جب فسردہ کر دیا | شیح شیری
sahilon ki KHamushi ne jab fasurda kar diya

غزل

ساحلوں کی خامشی نے جب فسردہ کر دیا

کرشن ادیب

;

ساحلوں کی خامشی نے جب فسردہ کر دیا
خواہشوں کی کشتیوں کو غرق دریا کر دیا

جسم کیا تھا لذتوں کا ایک دریا تھا کبھی
ہر کسی نے پی کے جس کو آج صحرا کر دیا

آج بیٹھے تک رہے ہیں عمر کا خالی گلاس
موسموں کا مے کدہ یہ کس نے سونا کر دیا

میں برہنہ جسم اس کا اوڑھ کر پھرتا رہا
جامہ پوشی کے جنوں نے مجھ کو ننگا کر دیا

تھا یقیناً دوستوں کی صف میں اک دشمن مرا
بے خبر پا کر اچانک جس نے حملہ کر دیا

سوچ کی ساری بصیرت چھیننے والے بتا
تو تو سورج تھا مرا کیوں مجھ کو اندھا کر دیا

وہ جو کل تک مانگتے تھے مجھ سے قد میرا ادیبؔ
شعر کے ناقد نے ان کو مجھ سے اونچا کر دیا