ساحل پہ سمندر کے کچھ دیر ٹھہر جاؤں
ممکن ہے کہ موجوں کے ماتھے پہ ابھر جاؤں
تپتے ہوئے لمحوں کو سیراب تو کر جاؤں
اک موج صدا بن کر صحرا میں بکھر جاؤں
ہر سنگ ہے اک شیشہ ہر شیشہ ہے اک پتھر
اے شہر طلسم آخر ٹھہروں کہ گزر جاؤں
لاؤ نہ اجالوں کو اس شہر کی سرحد تک
ایسا نہ ہو میں اپنے سائے سے ہی ڈر جاؤں
ہر سمت فضاؤں میں پتھراؤ کا عالم ہے
شیشے کا بدن لے کر جاؤں تو کدھر جاؤں
ہر شام مرے دل میں دیتا ہے صدا کوئی
میں ڈوبتے سورج کے ہم راہ نہ مر جاؤں
روکے نہ اگر مجھ کو اس دشت کی تنہائی
عشرتؔ میں ہواؤں کے پیکر میں اتر جاؤں
غزل
ساحل پہ سمندر کے کچھ دیر ٹھہر جاؤں
عشرت ظفر