EN हिंदी
ساحل پہ سمندر کے کچھ دیر ٹھہر جاؤں | شیح شیری
sahil pe samundar ke kuchh der Thahar jaun

غزل

ساحل پہ سمندر کے کچھ دیر ٹھہر جاؤں

عشرت ظفر

;

ساحل پہ سمندر کے کچھ دیر ٹھہر جاؤں
ممکن ہے کہ موجوں کے ماتھے پہ ابھر جاؤں

تپتے ہوئے لمحوں کو سیراب تو کر جاؤں
اک موج صدا بن کر صحرا میں بکھر جاؤں

ہر سنگ ہے اک شیشہ ہر شیشہ ہے اک پتھر
اے شہر طلسم آخر ٹھہروں کہ گزر جاؤں

لاؤ نہ اجالوں کو اس شہر کی سرحد تک
ایسا نہ ہو میں اپنے سائے سے ہی ڈر جاؤں

ہر سمت فضاؤں میں پتھراؤ کا عالم ہے
شیشے کا بدن لے کر جاؤں تو کدھر جاؤں

ہر شام مرے دل میں دیتا ہے صدا کوئی
میں ڈوبتے سورج کے ہم راہ نہ مر جاؤں

روکے نہ اگر مجھ کو اس دشت کی تنہائی
عشرتؔ میں ہواؤں کے پیکر میں اتر جاؤں