ساحل پر دریا کی لہریں سجدا کرتی رہتی ہیں
لوٹ کے پھر آنے جانے کا وعدا کرتی رہتی ہیں
کیا جانے کب دھرتی پر سیلاب کا منظر ہو جائے
ہر دم یہ مجبور نگاہیں ورشا کرتی رہتی ہیں
ان کی نیا بن مانجھی کے پار کرے گی سب دریا
کیونکہ ڈھیر دعائیں جیسے پیچھا کرتی رہتی ہیں
کس کس منظر پر خود کو رنجیدہ کر لوں سوچوں گا
ہر منظر پر آنکھیں میری نوحہ کرتی رہتی ہیں
بے محنت جب روٹی قیدی بن جاتی ہے تھالی کی
بے غیرت سی راتیں مجھ سے شکوہ کرتی رہتی ہیں
پتھر ہو جائیں یا پانی رم جھم رم جھم برسائیں
آنکھیں سارے منظر کو آئینہ کرتی رہتی ہیں

غزل
ساحل پر دریا کی لہریں سجدا کرتی رہتی ہیں
ظفر امام