ساحل کی ریت چاند کے منہ پر نہ ڈالیے
ہمت جو ہو تو بحر سے موتی نکالیے
خوشبو کی طرح تھام کے چلیے ہوا کا ہاتھ
مثل غبار بوجھ فضا پر نہ ڈالیے
آوارہ موسموں کے بگولوں کے ساتھ ساتھ
پھرتا ہے کوئی مجھ کو ہوا در ہوا لیے
کھلتا نہیں کہ کس کے لیے سرگراں ہوں میں
قدموں میں خاک سر پہ فلک کی ردا لیے
سائے کی طرح رینگ رہا ہوں زمین پر
گزرے ہوئے زمانوں کی آواز پا لیے
اک حرف میرے کان میں کہتا ہے رات دن
مجھ کو کتاب خاک سے باہر نکالیے
ممکن ہے کوئی شکل ابھر آئے سامنے
آئینۂ خلا میں کوئی عکس ڈالیے
آزاد ہو سکا نہ بدن قید خاک سے
ہر چند ہم نے پاؤں ہوا میں جما لیے
اک شمع بے نشاں کا پتہ ڈھونڈتے ہوئے
ہم نے دل و نگاہ کے سورج بجھا لیے
غزل
ساحل کی ریت چاند کے منہ پر نہ ڈالیے
نذیر قیصر