ساغر کیوں خالی ہے مرا اے ساقی ترے میخانے میں
پھر ڈال دے الفت کی نظریں اک بار مرے پیمانے میں
وہ عشق نہیں ہے بو الہوسی جو وصل کی چاہت کرتا ہے
باقی ہے فراست اب تک بھی اتنی تو ترے دیوانے میں
دنیا کی عنایت ہے اتنی ہر گام بچھاتی ہے کانٹے
ہم رنگ حنا کیسے بھرتے اس الفت کے افسانے میں
کیوں خاک میں میری وصف نہیں جس سے مہ و انجم شرمائیں
ہر آن الجھتا جاتا ہوں اس گتھی کو سلجھانے میں
پھر راز خودی اعزاز خودی پرواز خودی اس سے پوچھیں
اقبالؔ سا کوئی فرزانہ مل جائے اگر انجانے میں
غزل
ساغر کیوں خالی ہے مرا اے ساقی ترے میخانے میں
احمد شاہد خاں