صاف کہتے ہو مگر کچھ نہیں کھلتا کہنا
بات کہنا بھی تمہارا ہے معما کہنا
رو کے اس شوخ سے قاصد مرا رونا کہنا
ہنس پڑے اس پہ تو پھر حرف تمنا کہنا
مثل مکتوب نہ کہنے میں ہے کیا کیا کہنا
نہ مری طرز خموشی نہ کسی کا کہنا
اور تھوڑی سی شب وصل بڑھا دے یارب
صبح نزدیک ہمیں ان سے ہے کیا کیا کہنا
پھاڑ کھاتا ہے جو غیروں کو جھپٹ کر سگ یار
میں یہ کہتا ہوں مرے شیر ترا کیا کہنا
ہر بن موئے مژہ میں ہیں یہاں سو طوفاں
عین غفلت ہے مری آنکھ کو دریا کہنا
وصف رخ میں جو سنے شعر وہ ہنس کر بولے
شعر ہیں نور کے ہے نور کا تیرا کہنا
لا سکوگے نہ ذرا جلوۂ دیدار کی تاب
ارنی منہ سے نہ اے حضرت موسیٰ کہنا
کر لیا عہد کبھی کچھ نہ کہیں گے منہ سے
اب اگر سچ بھی کہیں تم ہمیں جھوٹا کہنا
خاک میں ضد سے ملاؤ نہ مرے آنسو کو
سچے موتی کو مناسب نہیں جھوٹا کہنا
کیسے ناداں ہیں جو اچھوں کو برا کہتے ہیں
ہو برا بھی تو اسے چاہئے اچھا کہنا
دم آخر تو بتو یاد خدا کرنے دو
زندگی بھر تو کیا میں نے تمہارا کہنا
پڑھتے ہیں دیکھ کے اس بت کو فرشتے بھی درود
مرحبا صل علیٰ صل علیٰ کیا کہنا
اے بتو تم جو ادا آ کے کرو مسجد میں
لب محراب کہے نام خدا کیا کہنا
ان حسینوں کی جو تعریف کرو چڑھتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ برا ہے انہیں اچھا کہنا
شوق کعبے لیے جاتا ہے ہوس جانب دیر
میرے اللہ بجا لاؤں میں کس کا کہنا
ساری محفل کو اشاروں میں لٹا دو اے جان
سیکھ لو چشم سخن گو سے لطیفہ کہنا
گھٹتے گھٹتے میں رہا عشق کمر میں آدھا
جامۂ تن کو مرے چاہئے نیما کہنا
میں تو آنکھوں سے بجا لاتا ہوں ارشاد حضور
آپ سنتے نہیں کانوں سے بھی میرا کہنا
چستیٔ طبع سے استاد کا ہے قول امیرؔ
ہو زمیں سست مگر چاہئے اچھا کہنا
غزل
صاف کہتے ہو مگر کچھ نہیں کھلتا کہنا
امیر مینائی