صاف کب امتحان لیتے ہیں
وہ تو دم دے کے جان لیتے ہیں
یوں ہے منظور خانہ ویرانی
مول میرا مکان لیتے ہیں
تم تغافل کرو رقیبوں سے
جاننے والے جان لیتے ہیں
پھر نہ آنا اگر کوئی بھیجے
نامہ بر سے زبان لیتے ہیں
اب بھی گر پڑ کے ضعف سے نالے
ساتواں آسمان لیتے ہیں
تیرے خنجر سے بھی تو اے قاتل
نوک کی نوجوان لیتے ہیں
اپنے بسمل کا سر ہے زانو پر
کس محبت سے جان لیتے ہیں
یہ سنا ہے مرے لیے تلوار
اک مرے مہربان لیتے ہیں
یہ نہ کہہ ہم سے تیرے منہ میں خاک
اس میں تیری زبان لیتے ہیں
کون جاتا ہے اس گلی میں جسے
دور سے پاسبان لیتے ہیں
منزل شوق طے نہیں ہوتی
ٹھیکیاں ناتوان لیتے ہیں
کر گزرتے ہیں ہو بری کہ بھلی
دل میں جو کچھ وہ ٹھان لیتے ہیں
وہ جھگڑتے ہیں جب رقیبوں سے
بیچ میں مجھ کو سان لیتے ہیں
ضد ہر اک بات پر نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
مستعد ہو کے یہ کہو تو سہی
آئیے امتحان لیتے ہیں
داغؔ بھی ہے عجیب سحر بیاں
بات جس کی وہ مان لیتے ہیں
غزل
صاف کب امتحان لیتے ہیں
داغؔ دہلوی