سائے پھیل گئے کھیتوں پر کیسا موسم ہونے لگا
دل میں جو ٹھہراؤ تھا اک دم درہم برہم ہونے لگا
پردیسی کا واپس آنا جھوٹی خبر ہی نکلی نا
بوڑھی ماں کی آنکھ کا تارہ پھر سے مدھم ہونے لگا
بچپن یاد کے رنگ محل میں کیسے کیسے پھول کھلے
ڈھول بجے اور آنسو ٹپکے کہیں محرم ہونے لگا
ڈھور ڈنگر اور پنکھ پکھیرو حضرت انساں کاٹھ کباڑ
اک سیلاب میں بہتے بہتے سب کا سنگم ہونے لگا
سب سے یقین اٹھایا ہم نے دوست پڑوسی دن تاریخ
عید ملن کو گھر سے نکلے شور ماتم ہونے لگا
غزل
سائے پھیل گئے کھیتوں پر کیسا موسم ہونے لگا
عبد الحمید