EN हिंदी
سائے نے سائے کو صدا دی | شیح شیری
sae ne sae ko sada di

غزل

سائے نے سائے کو صدا دی

وجد چغتائی

;

سائے نے سائے کو صدا دی
ریت کی ہر دیوار گرا دی

اس گھر میں رکھا ہی کیا تھا
میں نے گھر میں آگ لگا دی

نیند تمہیں آتی ہی کب تھی
یاد نے کس کی نیند اڑا دی

گزرے تھے خاموش گلی سے
وہ جانے اب جس نے صدا دی

ایک ذرا سی بات تھی جس کی
دل نے ساری عمر سزا دی

میں اپنے غم میں ڈوبا تھا
تم نے کیوں آواز سنا دی

اک سائے کی یاد میں پیارے
ناحق ساری عمر گنوا دی

ہو کے عالم میں بولے ہو
ساری فضا اک گونج بنا دی

جب ساگر اپنے پر آیا
ساحل کی ہر چیز بہا دی

عشق عجب ضدی بچہ ہے
سر پھوڑا اور خاک اڑا دی

عشق ہماری مٹی میں تھا
صورت کیوں پتھر کی بنا دی