EN हिंदी
سائے کی طرح کوئی مرے ساتھ لگا تھا | شیح شیری
sae ki tarah koi mere sath laga tha

غزل

سائے کی طرح کوئی مرے ساتھ لگا تھا

آصف جمال

;

سائے کی طرح کوئی مرے ساتھ لگا تھا
کیا گھر کی طرح دشت بھی آسیب زدہ تھا

پرسش کو نہ تھا کوئی تو تنہا تھا بہت میں
محروم جو تھا سب سے خفا رہنے لگا تھا

ہر دم نئے احساس کا طوفان تھا دل میں
کیا جانئے میں کون سی مٹی سے بنا تھا

کیا کیا نہ پریشانیٔ خاطر سے گزر آئے
کیا کیا نہ پڑے رنج کہ دیکھا نہ سنا تھا

نالے کو اسی دل میں اتر جانے کی حسرت
اور نے کو اسی بھولنے والے کا گلا تھا

آشفتگیٔ سر کی جو تہمت ہے غلط ہے
میں اپنی ہی خوشبو سے پریشان پھرا تھا

یہ کون دل و جاں سے ہم آہنگ ہوا ہے
اس درجہ تو محسوس خدا بھی نہ ہوا تھا