سائے کے لیے ہے نہ ٹھکانے کے لیے ہے
دیوار تو آنگن میں اٹھانے کے لیے ہے
دیکھو تو ہر اک شخص کے ہاتھوں میں ہیں پتھر
پوچھو تو کہیں شہر بنانے کے لیے ہے
رکھ دیتے ہیں پتھر مری تحریر کے اوپر
کہتے ہیں یہ کاغذ کو دبانے کے لیے ہے
در دل کا سہیلؔ آج ذرا بند نہ کرنا
اک شخص ابھی لوٹ کے آنے کے لیے ہے

غزل
سائے کے لیے ہے نہ ٹھکانے کے لیے ہے
سہیل احمد زیدی