سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے باایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے
رنج رہ کیوں کھینچے واماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شور قیامت کس کے آب و گل میں ہے
ہے دل شوریدۂ غالبؔ طلسم پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے
غزل
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
مرزا غالب